Newsletter Subscribe
Enter your email address below and subscribe to our newsletter
All voices matter
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی سزا معطل کر دی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے مختصر فیصلہ سنایا کیا گیا۔ جس میں اس نے حکام کو ہدایت کی گئی ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کو ضمانت پر رہا کیا جائے۔ جو کہ فیصلہ گزشتہ روز محفوظ کیا تھا۔
عدالت نے کہا کہ وہ بعد میں جاری ہونے والے تفصیلی فیصلے میں سزا کی معطلی کی وجوہات کی وضاحت کرے گی۔ یہ فیصلہ سابق وزیر اعظم خان کے لیے ایک بڑی قانونی فتح ہے۔ جس نے توشہ خانہ کیس میں سنائی جانے والی سزا کو چیلنج کیا تھا۔ اس ماہ کے شروع میں وفاقی دارالحکومت کی ایک ضلعی اور سیشن عدالت نے خان کو ریاستی تحفوں سے متعلق بدعنوانی کا مجرم قرار دیتے ہوئے تین سال قید کی سزا سنائی تھی اور ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں پانچ سال تک کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرادیا تھا۔ سابق وزیراعظم کو 5 اگست کو ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے فوراً بعد گرفتار کر لیا گیا تھا اور اس کے بعد سے وہ اٹک جیل میں نظر بند ہیں۔
اس کے بعد خان نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (ADSJ) ہمایوں دلاور کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) کی طرف سے دائر توشہ خانہ کیس میں مجرم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست کی۔
پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل ڈویژن بنچ نے درخواست پر کارروائی مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا۔
کارروائی کے اختتام سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے وکیل امجد پرویز نے پی ٹی آئی سربراہ کی درخواستوں کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے دلائل پیش کیے۔
سابق وزیر اعظم کے وکیل سردار لطیف خان کھوسہ کی جانب سے درخواست کے دفاع کے لیے تین نکات تک محدود رکھا گیا تھا- ان کے موکل کی مختصر سزا کی معطلی، دائرہ اختیار اور حق دفاع سے محرومی۔
تاہم انتخابی ادارے کے وکیل نے پیر کی سماعت کے دوران ای سی پی کی شکایت کو برقرار رکھنے پر اعتراضات کو بے بنیاد قرار دیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ دفاع کی جانب سے پیش کیے گئے گواہ متعلقہ نہیں تھے کیونکہ یہ ٹیکس کنسلٹنٹ تھے، جبکہ شکایت کنندہ نے سابق وزیراعظم پر اثاثوں کا جھوٹا بیان جمع کرانے کا الزام لگایا۔
انہوں نے خان کی سزا کی معطلی کی درخواست پر بھی اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ حق کا معاملہ نہیں ہے بلکہ عدالت کی صوابدید ہے جسے انصاف کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا ہے۔