Garrison News
All voices matter
ین الاقوامی صحافی صائمہ محسن کی امریکی نشریاتی ادارے پر شدید تنقید
لندن: پاکستانی نژادبرطانوی پریزینٹر اور سی این این کے لئے فرائض کی انجام دہی کے دوران زخمی ہونے والی بین الاقوامی صحافی صائمہ محسن نے امریکی نشریاتی ادارے کو اپنی تکلیف میں اضافہ کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
صائمہ محسن کابیان ایک نجی چینل کو دیئے گئے ایک انٹرویو کے دوران سامنے آیا۔ جب انہوں نے کیبل نیوز نیٹ ورک (سی این این) کے خلاف نسلی امتیاز اور برطانیہ کے ایمپلائمنٹ ٹریبونل میں غیر منصفانہ برطرفی کے لیے مقدمہ کرنے کا حق حاصل کیا۔
صحافی، جو اب اسکائی نیوز کی فری لانس پریزینٹر ہیں۔ 2014 میں یروشلم میں سی این این کی اسائنمنٹ کے دوران زخمی ہو گئی تھی۔ تین سال بعد براڈکاسٹر کے ساتھ اس کا معاہدہ اس وقت ختم ہو گیا جب انہوں نے بحالی کے دوران متبادل فرائض اور مدد کی درخواست کی۔
اٹلانٹا میں مقیم CNN نے ابتدائی سماعت میں دلیل دی تھی کہ برطانیہ کے ایمپلائمنٹ ٹریبونل کے پاس مقدمہ سننے کا دائرہ اختیار نہیں ہے اور مساوات ایکٹ 2010 اور ایمپلائمنٹ رائٹس ایکٹ 1996 ”علاقائی دائرہ اختیار کی بنیاد پر لاگو نہیں ہوتے ہیں ”۔
تاہم، ابتدائی سماعت نے اس بات پر اتفاق کیا کہ محسن اپنا کیس لے سکتی ہے، جس میں غیر قانونی برخاستگی، معذوری کے ساتھ امتیازی سلوک، مناسب ایڈجسٹمنٹ کرنے میں ناکامی اور غیر مساوی تنخواہ کا الزام لگایا گیا ہے۔
صحافی صائمہ محسن کا کہنا تھا کہ وہ ایک CNN کیمرہ آپریٹر کے ہاتھوں زخمی ہوئی تھی۔ وسیع فزیوتھراپی کے باوجود، وہ دائمی درد کے ساتھ زندہ رہتی ہیں اور ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اکثر درد کی وجہ سے بستر پر پڑی رہتی ہیں۔ اور صائمہ محسن نے مزید کہا کہ یہ ایک ایسا کیس ہے جس سے صحافیوں، میڈیا انڈسٹری اور خاص طور پر غیر ملکی نامہ نگاروں پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہونگے۔ ”میں جیت گئی! میں نے CNN کے خلاف اپنا کیس یہاں برطانیہ میں سننے کا حق جیت لیا ہے۔ CNN نے ٹریبونل کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا تھا اور اس سے انکار کرنے کی کوشش کی تھی کہ مجھے اپنے دعوے یہاں لانے کا حق ہے۔ میں نے اس کیس میں کسی وکیل کی خدمات حاصل نہیں کی اور اپنی نمائندگی کرتے ہوئے اس کیس کی پیروی کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ مشکل کام ضرور تھا مگر شکر ہے کہ مجھے براہ راست رسائی کی بنیاد پر میرے لیے کام کرنے کے لیے بیرسٹروں کی ایک شاندار ٹیم ملی۔
اس حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ میں میدان میں زخمی ہو ئی مجھے مناسب امداد یا متبادل فرائض نہیں دیے گئے اور چھوڑ دیاگیا۔ میڈیا اداروں کی طرف سے اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے والے صحافیوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔”محسن کا دعویٰ صحافیوں کے تحفظ، صحافت میں رنگین خواتین کے ساتھ سلوک کے ساتھ ساتھ غیر ملکی نامہ نگاروں کی اس قابلیت کے بارے میں اہم سوالات اٹھاتا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ انہیں فرائض کے دوران زخمی ہونے کے بعد مناسب صحت کی دیکھ بھال فراہم کی جائے تاکہ وہ کام جاری رکھ سکیں۔بین الاقوامی صحافی صائمہ محسن نے کہا کہ سی این این نے 2017 میں اس کا معاہدہ ختم کر دیا جس کی وجہ سے ان کا بریک ڈاؤن ہوا تھا اور وہ ڈپریشن کا شکار ہوئی تھی۔اسے اب واکنگ اسٹک کا استعمال کرنا پڑتا ہے اور وہ مستقل بنیاد پرکام نہیں کر سکتی۔ محسن نے ایک غیر مرئی معذوری کے ساتھ جینا سیکھا ہے اور ITV کے لیے ایک ریکارڈ ریٹنگ پروگرام بنایا ہے تاکہ برطانیہ میں غیر مرئی معذوری کے ساتھ رہنے والے بہت سے لوگوں کے لئے میں بیداری پیدا کی جا سکے۔