Newsletter Subscribe
Enter your email address below and subscribe to our newsletter
All voices matter
ہندوستان کی ریاست میں جاری وحشیانہ نسلی جنگ میں خواتین شریک ہونے کے ساتھ ساتھ متاثرین میں بھی شامل. بھارت کی شمال مشرقی ریاستیں شورشوں اور نسلی فسادات کا ہمیشہ شکار رہی ہیں
لیکن منی پور میں اکثریتی میٹیوں اور اقلیتی قبائلی کوکیوں کے درمیان جاری نسلی فسادات گزشتہ ماہ اس وقت عالمی سرخیوں میں آیا جب ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں دو کوکی خواتین کو کر کے ایک ہجوم برہنہ
.کر کے تشدد کر رہا تھا
اس حوالے سے پولیس شکایت میں، ایک خاتون نے کہا کہ اس کے ساتھ زیادتی کی گئی اور اس کے والد اور بھائی کو قتل کر دیا گیاہے۔کوکی خواتین کا الزام ہے کہ میں میٹیوں خواتین کا ایک گروپ ہےجو فسادات جیسے واقعات اور اقلیتی قبائل کی خواتین کے عصمت میں ملوث ہیں ۔جبکہ دوسری طرف اس بیان کی تردید کی جا رہی ہے۔انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے ایک عہدے دار کے مطابق خواتین کا گینگ ریپ سماجی اقدار کی مکمل تباہی کی طرف اشارہ کرتا ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کا کہنا تھا کہ اس نے برادریوں کے درمیان قائم تمام رشتوں میں تقسیم پیدا کر دی ہے جو کہ اب ان کے درمیان کسی قسم کی مفاہمت بھی ممکن نہیں رہی
ہندوستان کی سپریم کورٹ نے اعلان کیا کہ وہ ریاست میں جنسی تشدد کے واقعات کی تحقیقات کی نگرانی کرے گی۔ ایک رپورٹ کے مطابق مئی سے جاری فسادات سے میں اب تک 180 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 21 خواتین شامل ہیں اور ہزاروں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔سیکورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ خواتین بھی امن قائم کرنے کی کارروائیوں کو روکتی ہیں، ان قوانین کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جو مرد فوجیوں کو خواتین کے ساتھ جسمانی تصادم سے روکتی ہیں۔ وہ فرنٹ لائنز پر بنکروں پر بھی قابض ہیں، ہاتھ میں رائفلیں ہیں۔
جنسی زیادتی کے ایک معاملے میں، ایک 19 سالہ کوکی قبائلی خاتون نے رائٹرز کو بتایا کہ 15 مئی کو ریاستی دارالحکومت امپھال کے قریب تین افراد نے اس کے ساتھ عصمت دری کی جب اسے میرا پائیبیس کے ایک گروپ کے پاس لے جایا گیا اور ان کی موجودگی میں مارا پیٹا۔
اس نے 21 جولائی کو درج کی گئی پولیس شکایت میں کہا، “ہجوم میں سے ایک خاتون نے چار مردوں کو مجھے مارنے کی واضح ہدایات دی تھیں، جس کا رائٹرز نے جائزہ لیا ہے۔ وہ فرار ہو گئی اور کہا کہ وہ پہلے رپورٹ درج کرنے سے بہت خوفزدہ تھی۔پولیس نے اس کیس سے متعلق سوالات کا جواب نہیں دیا اور نہ ہی کسی گرفتاری کا کوئی ریکارڈ ہے۔