Newsletter Subscribe
Enter your email address below and subscribe to our newsletter
All voices matter
امریکی جریدے کی جانب شائع کیے گئے ایک مبینہ خط میں یہ دعوی کیا گیا ہے یہ اس سفارتی سائفر کا متن ہے جو گزشتہ سال مارچ میں امریکہ میں پاکستانی سفیر اسد مجید کی جانب سے اسلام اباد کو بھیجا گیا تھا جس کے حوالےسے عمران خان نے امریکہ پر سازش کے ذریعے اپنی حکومت کو گرانے کا الزام لگایا تھا. سائفر دراصل امریکی سیکرٹری سٹیٹ برائے جنوبی ایشیا اور پاکستان کے اس وقت کے امریکہ میں سفیر اسد مجید کے درمیان ہونے والی ایک ملاقات کا احوال تھا جو کہ اسد مجید نے کوڈ ورڈ میں محکمہ خارجہ اسلام اباد کو بھیجا تھا. س بات سے تو سبھی باخبر ہیں کہ عمران خان کی حکومت تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اپریل 2022 کو ختم کی گئی تھی اور عمران خان اس کو امریکی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ میرے روس کے دورے سے امریکہ خوش نہیں تھا اور اس لیے سازش کر کے میری حکومت ختم کر دی یاد رہے عمران خان نے فروری 2022 میں روس کا دورہ ایک ایسے وقت میں کیا جب روس اور یوکرین کی جنگ جاری تھی اور جس دن سابق وزیراعظم عمران خان اور روس کے صدر پیوٹن کی ملاقات شیڈیول تھی روس نے اسی دن یوکرین پر حملہ کر دیا تھا جس کی وجہ سے تمام دنیا کی نظریں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے دورہ روس پر جم گئی.
عمران خان کے اس بیان کو مزید تقویت گزشتہ روز شائع ہونے والے مبینہ ط کے متن سے ملتی ہے جس میں واضح طور پر پڑھا جا سکتا ہے کہ خط کے مطلوبہ مواد کے مطابق امریکہ نے یوکرین جنگ کے حوالے سے عمران خان کی خارجہ پالیسی پر شدید اعتراض کیا ہے. ڈونلز لو نے یوکرین جنگ پر پاکستان کی غیر جانبدار رہنے والے موقف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور یورپ میں اس حوالے سے کافی تشویش پائی جاتی ہے اور یہ موقف وزیراعظم کی پالیسی لگتی ہے اس کے جواب میں اسد مجید نے کہا کہ یہ صورتحال کا درست مطالعہ نہیں کیا گیا کیونکہ یوکرین کے حوالے سے پالیسی باہمی مشاورت کا نتیجہ ہے. اسد مجید کی جانب سے پوچھا گیا کہ امریکہ کے صدر سخت رد عمل کی وجہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ووٹنگ میں پاکستان کی عدم شرکت تھی انہوں نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ وزیراعظم عمران خان کے ماسکو کے دورے کی وجہ سے ہے اس خط کے متن کے مطابق مسٹر لو نے مزید کہا کہ اگر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ کامیاب ہو جاتا ہے تو واشنگٹن میں سب معاف کر دیا جائے گا۔ کیونکہ روس کے دورے کو وزیراعظم کے فیصلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ورنہ مجھے لگتا ہے کہ اگے بڑھنا مشکل ہوگا
اس خط کے مطابق یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح اسد مجید نے اس تاثر کو دور کرنے کی کوشش کی کہ عمران خان کا دورہ روس ایک طرفہ دورہ تھا جسے یوکرین کے خلاف ماسکو کی کاروائی کی توثیق کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے اسد مجید نے امریکی سفارت کار کو یہ بھی سوال کیا کہ اگر یوکرین پر پاکستان کا موقف واشنگٹن کے لیے اتنا اہم ہے تو اس نے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے دورہ روس سے قبل اسلام اباد سے بات چیت کیوں نہیں کی ۔اس پر ڈونلڈ لو نے جواب دیا کہ ’’واشنگٹن میں سوچ یہ تھی کہ پاکستان میں موجودہ سیاسی بحران کو دیکھتے ہوئے یہ اس طرح کی مصروفیات کا صحیح وقت نہیں ہے اور یہ پاکستان کے سیاسی حالات کے ٹھیک ہونے تک انتظار کر سکتا ہے ۔اس خط کے اخر میں اسد مجید اپنے نوٹ لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ
ہ مسٹر لو “وائٹ ہاؤس کی واضح منظوری کے بغیر” اتنے مضبوط جذبات کا اظہار نہیں کر سکتے تھے، جس کا انہوں نے بارہا حوالہ دیا۔ ”
اسد مجید کے اپنے تجزیے میں، یہ واضح تھا کہ مسٹر لو نے پاکستان کے داخلی سیاسی عمل پر باری باری بات کی۔ ہمیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے اور اسلام آباد میں امریکی ناظم الامور کو ایک مناسب ڈیمارچ کرنے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ محکمہ خارجہ پاکستان کی جانب سے تاحال کوئی تصدیق نہیں کی گئی جبکہ عالمی جریدے کے مطابق ان کو یہ مبینہ خط فوج کے ایک گمنام ذرائع کی جانب سے فراہم کیا گیا ہے۔