Newsletter Subscribe
Enter your email address below and subscribe to our newsletter
All voices matter
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی 5 اگست کی گرفتاری کے بعد ان کے گرد گھیرا تنگ ہو گیا ہے۔ جس کے بعد پارٹی کے رہنماؤں نے اسلام آباد میں تعینات غیر ملکی سفارت کاروں سے رابطہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ جس کا مقصد پارٹی چئرمین عمران خان کے لیے “ریلیف” حاصل کرنا ہے۔ ”
ایسا لگتا ہے کہ پارٹی کی کوششوں میں تیزی آگئی ہے۔ کیونکہ عمران خان اسلام آباد کی سیشن عدالت کے توشاخان کیس میں سنائے گئے فیصلے کے نتیجے میں دو ہفتوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ جس میں انہیں تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ روز ڈپلومیٹک انکلیو میں آسٹریلیا کے ہائی کمشنر نیل ہاکنز کی رہائش گاہ پر شاہ محمود قریشی، بیرسٹر علی ظفر اور رؤف حسن سمیت پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں کی سات غیر ملکی سفیروں کے ساتھ ملاقات ہوئی۔
ناشتے کی میٹنگ میں شریک دیگر سفارت کاروں میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم، برطانیہ کی ہائی کمشنر جین میریٹ، یورپی یونین کی سفیر اور وفد کی سربراہ ڈاکٹر رینا کیونکا، کینیڈین ہائی کمشنر لیسلی سکینلون، ناروے کے سفیر پیر البرٹ الاساس اور انڈونیشیا کے سفیر ایڈم ملاورمن ٹوگیو شامل ہیں۔
سفارت کاروں کی جانب سے باضابطہ کوئی تصدیق نہیں کی گئی ہے تاہم پی ٹی آئی کے دو رہنماؤں نے مبینہ طور پر اس ملاقات کی تصدیق کی ہے۔ دفتر خارجہ کی جانب سے بھی تاحال اس حوالےسے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
ناشتے پر ہونے والی ملاقات پہلے پی ٹی آئی کے اہم رہنما قریشی کی رضامندی سے طے کی گئی تھی، جو اس وقت پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین ہیں اور ماضی میں دو بار ملک کے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔ غیرملکی سفیروں سے ملاقات میں پی ٹی آئی رہنماؤں نے ان حالات کے بارے میں بات کی جن میں ان کے چیئرمین کو جیل میں رکھا گیا تھا اور جس کیس میں انہیں عدالت نے سزا سنائی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی ٹیم نے امریکی سفیر سے سیفر ساگا سے متعلق وضاحت پیش کی اور ان سے سیاسی منظر نامے پر تبادلہ خیال کیا۔ پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رؤف حسن نے کہا کہ آسٹریلوی ہائی کمشنر نے انہیں ناشتے پر مدعو کیا اور انہوں نے ان سے ملک کی سیاسی صورتحال پر بات کرنے کے موقع سے فائدہ اٹھایا۔ اس حوالے سے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ غیر ملکی سفیروں سے ملاقات میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے رجحانات اور علاقائی صورتحال کے ساتھ ساتھ انتخابات اور سیاسی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔